حسن صبّاح کے نام ملک شاہ کا خط اور حسن صباح کا جواب Malik Shah Suljoqi's letter to Hassan-e-Sabah and Hassan's reply

 حسن صبّاح کے نام ملک شاہ کا خط

ترجمہ و حواشی ڈاکٹر عزیزاللہ نجیب
اے حسن صبّاح، تم نے ایک نیا دین اور نئی ملت ایجاد کی ہے، اورلوگوں کو فریب دیتے ہو اور انہیں حاکم وقت کے خلاف ورغلاتے ہو۔تم نے بعض جاہل پہاڑی لوگوں کو اپنے ساتھ ملالیا ہےاور ان کو چکنی چبڑی باتیں سناتے ہو جس کے نتیجے میں وہ جاکر لوگوں کو چھری گھونپ دیتے ہیں۔ اورتم عباسی خلفاء پر جو کہ خلفائے اسلام ہیں اور ملک و قوم کا استحکام اور دین و سلطنت کا نظام انہیں کے ذریعے مستحکم ہے لعن طعن کرتے ہو۔ تمہیں اس گمراہی سے بازآناچاہیے اور مسلمان بنناچاہیئے۔ ورنہ ہم نے فوج متعین کردی ہے، اورمیں میرے پاس تمہارے حاضر ہونے یا خط کے جواب کا منتظر رہوں گا۔ خبردار، خبردار۔خود کواور اپنے پیروؔوں کوہلاکت کے بھنور میں نہ ڈالو اور اپنے قلعوں کی مضبوطی پر غرورنہ کرو، اور اس حقیقت کو سمجھ لو کہ تمہارا قلعہ ، جو کہ قلعہ الموت ہے، اگرآسمان کا کوئی برج ہی کیوں نہ ہو تب بھی ہم اللہ تعالٰی کی مہربانی سے اسے خاک کے برابر کردیں گے۔


حسن صبّاح کا ملک شاہ کے خظ کا جواب

جب صدر کبیر ضیاءالدّین خاقان سلطان کا فرمان لے کر یہان پہنچا تو میں نے اسے خوش آمدید کہا اورشاہی فرمان کو سرآنکھوں پر رکھا۔ اور اس امر سے کہ سلطان نے اس بندے کو یاد فرمایا ہے میرا سرفخرسے اُنچا ہوگیا۔ اب میں اپنے حالات اورعقائدکے بارے میں کچھ عرض کئے دیتاہوں۔ امید ہے کہ سلطان اور ان کے امراء میرا حال سنیں گےاوراس معاملے پر غور فرمائیں گے، اور میرے بارے میں بعض ارکان سلطنت سےمشورہ نہیں کرینگے جن کی دشمنی کا سلطان کو بخوبی علم ہے؛ خاص طور پرنظام الملک سے (مشورہ نہیں کریں گے)۔ اس کے بعد میری باتوں میں سے بادشاہ کے دل میں جو بھی رائے قائم ہواس سے کوئی گریز اور تجاوزنہیں ہے۔اور اگر میں اس سے پھر گیا تو سمجھناکہ دین اسلام سے پھر گیااورخداورسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نافرمان بنا۔لیکن اگر سلطان میرے دشمنوں کے اکسانے کی وجہ سے مجھ سے ناراض ہوئے تو پھرلازماًمجھے بھی اپنی فکر کرناہوگی۔ میرا ایک زبردست دشمن سے آمناسامنا ہے جو حق کو باطل اور باطل کو حق کی صورت میں پیش کرسکتا ہے، اور اکثر ایسا ہوتا رہا ہے۔ اور میرے ساتھ بھی یہی ہوا ہے جس کا سلطان کو اچھی طرح علم ہے۔

            اس بندے کے ابتدائی حالات زندگی کچھ یوں ہیں کہ میرے والد شافعی مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان تھے۔ جب میں چار سال کا ہوا تو والد نے مجھے مکتب بھیجااور حصّول علم میں مصروف رکھا۔ میں چارسال سے لے کر چودہ سال کی عمر تک حصول علم میں مشغول رہا۔ یہاں تک کہ مجھے دین کا شوق پیدا ہوا۔ شافعی کی کتابوں میں مجھےاہل بیت رسول صلوات اللہ علیہ و علیہم کی فضیلت اور ان کی امامت کے بارے میں بہت کچھ نظرآیااور میرا دل اس طرف مائل ہوا، اور میں ہر وقت امام زمانہ کی تلاش میں رہا۔ مگرحکام زمانہ کے دباؤ کی وجہ سے مجھے ایسے معملات کی طرف متوجہ ہوناپڑاجنہیں لوگ دنیوی اعتبار سے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور میں دین کی خواہش اور جستجو کو بھول بیٹھا۔ کار دنیا اور خدمت خلق میں محو ہوااور خالق کے کام کو پس پشت ڈال دیا۔

                        اللہ تعالٰی کو میرا یہ کام پسند نہ آیا، اس لیے اس نے دشمنوں کو میر ے پیچھے لگادیا جنہوں نےمجھے پریشانی کے عالم میں دنیوی امور سے ہٹادیا اور میں نے وہاں سے راہ فرار اختیار کی اور شہروں اور بیابانوں میں گھومتا رہا اور سخت رنج و ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ میرا اور نظام الملک کا معاملہ سلطان سے پوشیدہ نہیں۔

جب اللہ تعالٰی نے مجھے سلامتی کے ساتھ اس بھنور سے نکال دیا تو مجھے معلوم ہو کہ خالق کے کام کو چھوڑ کر مخلوق کے کاموں میں مصروف ہونے کا نتیجہ یہی نکلتا ہے۔میں جوانمردی کے ساتھ امور دین اور طلب آخرت پر کمر بستہ ہوا اور رئے سے بغداد چلاگیا، ایک عرصے تک وہاں مقیم رہا اور وہاں کے حالات کا خوب جائزہ لیا۔عباسی خلفاء کے حالات کا کھوج لگایااور معلوم ہوا کہ دین اسلام کے پیشوا خلفاء بنوعباس مروت اور مسلمانی کی اوصاف سے خالی تھے اور مجھے یقین ہوگیا کی اگر دینداری اور مسلمانی کی بنیاد ان(نبوعباس) کی امامت و خلافت پر ہے تو اس دین سے کفر و زندقہ بہتر ہے۔ میں بغداد سے مصر چلاگیا جہان خلیفہ برحق امام المستنصر بااللہ موجود تھے۔ میں نے ان کے حال کی تحقیق  کی اور ان کی خلافت کا عباسیوں کی خلافت سے اور ان کی امامت کا عباسیوں کی امامت سے موازنہ کیا اور اُنہیں (یعنی فاطمیوں کو) برحق پایا۔چنانچہ میں نے ان کو تسلیم کیااور عباسیوں کی خلافت سے مکمل طور پر بیزار ہوا۔

جب عباسی خلیفہ کو میری حالت کا پتہ چلا تو اس نے مجھ کو گرفتار کرنے کے لیے آدمی بھیجے تاکہ وہ مجھے راستے میں پکڑ لیں۔ اللہ نے مجھے اس بھنور سے بھی نجات دلائی اور میں سلامتی کے ساتھ مصر پہنچا۔ اس کے بعد عباسی خلیفہ نے سونے سے لدے ہوئے تین خچر اور دیگر سامان مصری فوج کے کمانڈر انچیف(بدرالجمالی) کو بھیجا تاکہ مجھے، یعنی حسن یا اس کے سر کو بغداد بھیجے۔ چونکہ خلیفہ برحق امام مستنصرباللہ کی عنایت میرے شامل حال تھی اس لیے اس سازش کا شکار ہونے سے بچ گیا۔

عباسی خلیفہ نے سپہ سالار بدرالجمالی کو میرے خلاف اکسایا تھا اس لیے اس نے مجھےکفار فرنگ کی طرف دعوت کے کام پر مامور کیا۔امام کے سمع مبارک تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے مجھے اپنی پناہ میں لے لیا۔اس کے بعد مجھے امام نے فرمان عنایت کیاکہ حسب علم و استطاعت مسلمانوں کو راہ راست کی طرف بلاؤں اور خلفاء مصر کی امامت کی حقیقت سے لوگوں کو آگاہ کروں۔۵ اگر سلطان(ملک شاہ)کو اطیعوااللہ واطیعواالرسول و اولی الامر منکم (اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور(ان کی) جو تم میں سے(اللہ کے) امر والے ہیں ۴: ۵۹ کی سعادت نصیب ہے تو لازماً میری باتوں کو مان لے گا اور ان(عباسیوں) کے بیخ کنی پر کمر بستہ ہوجائے گا جیساکہ سلطان محمود ہوا تھا، اور ان کے شر سے مسلمانوں کو نجات دلائے گا۔ ورنہ ایک وقت آئے گا جب کوئی دوسرا شخص یہ کام سرانجام دے گا اور ثواب کمائے گا۔

دوسراآپ کا یہ کہناکہ میں نے ایک نیادین اور نئی ملت ایجاد کی ہے۔ میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ کوئی نیا دین اور نئی ملت ایجاد کروں۔جس دین پر میں ہوں وہ وہی دین ہے جو رسول اللہ کے زمانے میں صحابہؓ کا دین تھا اور قیامت تک سچا دین یہی ہے اوریہی رہے گا۔ میرا دین وہی ہے جو مسلمانوں کا دین ہے۔ اشھدان لاالٰہ الااللہ و اشھدان محمداً رسول اللہ( میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں)۔ مجھے دنیا اور دنیا کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔میں جو کچھ کرتا اور کہتا ہوں وہ خالصاً و مخلصاً دین حق کی خاطر ہے، اور میرا عقیدہ ہے کہ آل رسول اپنے جد امجدکی جانشینی کے لیے بہ نسبت عباسیوں کے زیادہ لائق اور حق دار ہیں اور بنوعباس کا حق ان کے بعد بنتا ہے، بشرطیکہ وہ لائق ہوں اور ان کا کردار اچھا ہو۔

اے سلطان ملک شاہ! کیا آپ مناسب سمجھیں گے کہ آپ نے ان تمام تکالیف کو برداشت کرکے مشرق سے مغرب اور شمال سے ہندوستان  تک فوج کشی کرکے جو مملکت حاصل کی ہے وہ آج آپ اپنے بیٹوں کے ہاتھ سے نکل جائے اورآپ کی اولاد کا دنیا جہاں کہیں بھی نام و نشان ہو قتل کی جائیں۔ اگر آپ اسے درست سمجھتے ہیں تو پھران (عباسیوں)کی خلافت بھی جائز ہوگی۔مگر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔بنو عباس وہ ہیں جن کی برائیون کا جو مشاہدہ میں نے کیا ہے تھوڑا سا تذکرہ کروں تو وہ ایسی (برائیاں) ہیں جنہیں کسی بھی دین و ملت میں کسی شخص نے روا نہیں رکھا ہے اور نہ روا رکھی جاسکتی ہیں۔اگر کسی کو ان کی حالت کا علم نہ ہو تو ہوسکتا ہے کہ وہ ان پر یقین و اعتماد کرے اور ان کی خلافت کو برحق مانے۔ مگر میں، جو کہ ان کے کرتوتوں سے واقف ہوں کس طرح ان کو بر حق اور جائز سمجھوں گا؟

اوراگر سلطان ان کی حالت سے واقف ہونے کے باوجود بھی ان کی بیخ کنی کا ارادہ نہ کرے اور ان کے شر سے مسلمانوں کو نجات نہ دلائے،تو معلوم نہیں کل قیامت کے دن سوال کے وقت کیا جواب دے گا اور کس طرح نجات کا مستحق ہوگا۔ جب تک میں زندہ رہوں گا میرا دین یہی ہوگا۔ اس سے میں نے نہ کبھی انکار کیا ہے اور نہ کروں گا۔

 چارخلفاءؓ اورعشرۂ مبشّرہؓ  کی محبت میرے دل میں تھی، ہے  اور رہے گی۔ میں نے کوئی ایسا دین ایجاد نہیں کیا ہے جس پر میرا پہلے سے ہی ایمان نہ رہا ہو اور نہ ہی میں نے کوئی ایسا مذہب ایجاد کیا ہے جو مجھ سے پہلے نہیں تھا۔میں جس دین پر کار بند ہوں وہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں صحابہؓ  کا دین تھا اور قیامت تک راہ راست یہی ہے اور یہی رہے گی۔

اب میں اس موضوع پرآتا ہوں کہ میں اور میرے پیرؤوں نے بنو عباس پر طعن کیا ہے۔جو بھی سچا مسلمان ہے اور دین و ملت سے واقف ہے وہ ان لوگوں پر کس طرح طعن و تشنیع نہیں کرے گا جن کا آغازو انجام مکروفریب، فسق وفجوراور فساد پر تھا، ہے اور ہوگا۔اگرچہ ان کے احوال،افعال اور واقعات تمام دنیا والوں سے پوشیدہ نہیں، تاہم ایک مختصر سا تذکرہ کیا جاتا ہے تاکہ سلطان پر میری حجت رہے۔

 سب سے پہلےابو مسلم (خراسانی) کے معاملے سے آغاز کریں گے۔ وہ ایک ایسا شخص تھا، جس نے اتنی جدوجہد کی اور تکلیفیں اٹھائیں اور آل مروان کے ظلم وستم کے ہاتھ کو مسلمانوں کی جان و مال سے روک دیا۔ درحقیقت وہ (آل مروان) خود لعنت کے مستحق تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک عترت پر لعنت کرتے تھے۔ابو مسلم نے اس ظلم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور دنیا کو عدل و انصاف سے آراستہ کیا۔بنو عباس نے اسے کس طرح دھوکا دیا اور قتل کیااور رسول پاکؐ کی اولاد میں سے ہزاروں افراد کو مختلف علاقوں میں شہید کیا اور آل رسولؐ کی ایک جماعت  نے جو(دنیاکے)کونوں اور ویرانوں میں باقی رہ گئی تھی اپنی جان بچانے کے لیے سیادت کا لباس ترک کردیا، مگر پھر بھی نہ بچ سکے۔ وہ (بنو عباس) ہمیشہ شرابخوری، زنا اور اغلام(لونڈے بازی) میں مشغول تھے۔ان دنوں عباسیوں کی بدکاریاں یہاں تک پہنچ چکی تھیں کہ ہارون الرّشید، جو عباسیوں میں سب سے زیادہ عالم و فاضل شمار ہوتا تھا، کی دو بہنیں تھیں۔ وہ ان میں سے ایک کو شراب کی مجلس میں اپنے پاس رکھتا تھاجہاں اس کے ندیم بھی موجود ہوتے تھے۔ حد یہ ہوگئی کہ جعفر برمکی نے جو اس مجلس میں بیٹھنے والوں میں سے تھا ہارون کی بہن سے بدکاری کی۔ اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ لڑکے کو ہارون سے چھپایا گیا۔ جب اسی سال ہارون حج کے لیے گیا تو بچے کو دیکھ لیا اور اسے وہیں پر قتل کروادیا۔۶ نیزیہ کہ ابو حنیفہ کوفی جیسے بزرگ کے جو اسلام کے ایک رکن کی حیثیت رکھتے تھے سو کوڑے لگوائے، اور منصورالحلاج جیسے پیشوا کو سولی پر چڑھا دیا۔ اگر ان (عباسیوں) کی کرتوتوں کو گننے بیٹھ جائیں توانسان کی عمر کم ہوگی۔

یہ ہیں تمہارے خلفاء اور یہی ہیں تمہاری مسلمانی کے ارکان جن پر تمہارے ملک و ملت کا قیام اور دین و مذہب کا نظام استوار ہے۔ اگر میں یا اور کوئی ان پر لعن طعن کریں ، یا ان کی نافرمانی کریں تو خود ہی انصاف کیجیے کہ وہ حق پر ہوگا یا باطل پر؟

اب آئیے اس بات کی طرف کہ ہم جاہلوں کوبہکاتے ہیں اور وہ ہمارے بہکاوے میں آکر لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ اہل عقل اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ جان سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں، اور کوئی بھی شخص کسی کے کہنے سے اپنی جان داؤ پر نہیں لگاتا، اور وہ بھی مجھ جیسے غریب آدمی کے کہنے پر۔ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ میں ایسے کاموں کا مرتکب ہوجاؤں۔

خراسان کے علاقے میں سلطان کے غلاموں اور نظام الملک کے اہکاروں کا ایک گروہ ان رسومات اور طریقوں سے منحرف ہوگیاہےجو اس سے پہلے مسلمانوں میں عام تھے۔ ان میں سے بعض لوگ مسلمانوں کی بیوں اور زاہدوں کے حرم تک کی بے حرمتی کرتے ہیں۔یہاں تک کہ شوہروں کی موجودگی میں عورتوں پر دست درازی کرتے ہیں۔ بعض لوگ دفتری معملات میں ناانصافی کرتے ہیں۔ جب فریادی فریاد لے کر سلطان کے عملے کے پاس جاتے ہیں تو شنوائی نہیں ہوتی، بلکہ مصیبت الٹی فریادیوں پر پڑتی ہے۔ نظام الملک نے جوسلطنت کا کرتا دھرتا وزیراعظم ہے، ابونصر کندری جیسے بزرگ کو جس کے مرتبے کا کوئی وزیراعظم کسی عہد میں کسی بادشاہ کی خدمت میں کسی ملک میں نہیں ہوگزرا ہے سلطان کے مال تصرف کے بہانے شہید کیا اور اسے اپنے راستے سے ہٹادیا۔

آج نظام الملک نے جابروں اور ظالموں کو اپناہمنوا بنالیا ہے۔ ابونصر کندری کے زمانے میں دس درہم ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور اسے سرکاری خزانے میں داخل کیا جاتا تھا۔ اسکے برعکس نظام الملک پچاس درہم ٹیکس وصول کرتا ہے اور آدھا درہم بھی سلطان کے کاموں پر صرف نہیں کرتا تھوڑا کچھ اپنے حامیوں کو دیتا ہے، باقی رقم اپنے بیٹوں، بیٹیوں اور دامادوں پر خرچ کرتا ہے۔ نیز سلطنت کے اطراف میں عمارتیں بنانے پر جو رقم ضائع کرتا ہے اس کا سب کو علم ہے۔کیاخواجہ ابونصر بھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں پر اسی طرح خرچ کرتا تھا؟ کب اس نے ایک دینار بھی عمارتوں پر صرف کیاتھا؟

لوگوں کو اس بے سروسامانی کے عالم میں کہیں سے بھی نجات کی امید نہیں اگر ان میں سے کچھ لوگ بصورت مجبوری اپنی جان جوکھوں میں ڈالیں اور ان ظالموں میں سے کسی ایک یادو کو دفع کریں تو ناممکن نہیں ہے۔ اور اگر ان کو ماربھی ڈالیں تو مجبور ہیں۔

وقت ضرورت چونماندگریز    دست بگیرد سرشمشیر تیز

ترجمہ : ضرورت ک وقت جب فرارکی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی ہے تو (مجبوراً)ہاتھ  تیز تلوار کو بھی پکڑ لیتا ہے۔

حسن صبّاح کو ان باتوں سے کیا ملتا ہے، اور اسے کیا ضرورت ہے کہ کسی کو فریب دے اور خود دنیا میں کونسا ایسا کام ہے جو تقدیر خداوندی کے بغیر ظہور پذیر ہوا۔ رہا آپ کا یہ فرمانا کہ مجھے اپنی سرگرمیوں کو روک دینی چاہئیں، ورنہ آپ مجھے سزا دیں گے۔ نعوذباللہ میں، جو حسن ہوں، کسی ایسے عمل کا مرتکب ہوجاؤں جو درگاہ سلطانی کے منشاء کے خلاف ہو۔ لیکن چونکہ سلطان کے دربار میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو میری گرفتاری کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ میں نے تدبیر سے اس گوشے کو حاصل کرکے اپنے لیےپناہ گاہ بنائی ہے۔ جب دشمنوں سے فراغت حاصل ہوگی تو خود ہی دربارسلطانی کارخ کروں گا اور باقی ماندہ غلاموں کے زمرے میں شامل ہوجاؤں گا اور جو کچھ مجھ سے ممکن ہوگا سلطان کی دنیوی اور اخروی بہبودی کے لیے عرض کروں گا۔اگر مجھ سے اس کے برعکس کوئی کام سرزد ہوا اور میں حکم سلطانی کی خلاف ورزی کروں تو دنیا میں مجھے سزا ملنی چاہیےاور اپنے اورغیر مجھ پر طعن کریں گے اور کہیں گےکہ میں نے اپنےوالی کی مخالفت کی اور اطیعوا اللہ واطیعوا الرّسول و اولی الامر منکم( یعنی اللہ تعالٰی کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور(ان کی) جو تم میں (اللہ کے)امر والے ہیں۴:۵۹) کی سعادت سے محروم رہا۔اور بادشاہ کے دربارمیں میرےدشمنوں کی عزت وحرمت میں اضافہ ہوگا۔اور میرے بارے میں ایسی جھوٹی باتیں گھڑلیں گے کہ جن کا مجھے علم ہی نہیں ہوگا اور جو بھی نیکی دین و دعوت کے سلسلے میں مجھ سے صادر ہوگی اسے بدی کی شکل میں لوگوں کے سامنے مشہور کریں گےاور میری نیک نامی کو بدنامی میں تبدیل کریں گے۔اور اگر میں نظام الملک کے دشمنی کے باوجودخود کو سلطان کے دربار میں پیش کروں اور اس نے مجھ پر جو مظالم ڈھائے ہیں ان کو بھی بھول جاؤں تب بھی چونکہ سلطان عباسیوں کی متابعت کرتا ہے اس لیے مجھے ان کے احکام (کی تعمیل) سے مفر نہیں ہوگی۔عباسیوں کا میرے ساتھ جھگڑا خود سلطان کو معلوم ہے کہ جب میں مصر جارہا تھاتو مجھے گرفتار کرنے کے لیے کیاکیا کوششیں کیں۔وہ مجھے راستے میں گرفتار نہ کرسکے تو انہوں نے مصر کے سپہ سالار بدرالجمالی کو مال کثیر روانہ کیااور اس کی مختلف طریقوں سے خدمت کی۔ چنانچہ بدرالجمالی میری جان کے درپے ہوگیا۔اگر خلیفہ برحق امام المستنصرباللہ کی عنایت شامل حال نہ ہوتی تو میں سازش کے اس بھنور میں ڈوب جاتا۔ آخر میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ فوج کے سپہ سالار  نے مجھے بحری راستے فرنگستان (یورپ) جانے پر مجبور کیا اوروہاں جاکر اہل فرنگ کو دعوت کرنے کا حکم دیا۔خداکے فضل سے مجھے اس بھنور سے بھی نجات ملی اور کئی مصیبتوں اور پریشانیوں کے بعد عراق پہنچ گیا۔وہ وہاں بھی میری تلاش میں لگے رہے۔ آج میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ میں خلفائے علوی(یعنی فاطمی خلفاء)دعوت ظاہر کی ہے، اور طبرستان ، قہستان اورجبال میں کئی قلعوں پر قبضہ کرلیا ہے، اور بہت سے دوست، رفیق اور شیعیان علوی میرے گرد جمع ہوگئے ہیں۔بنوعباس ہر لحاظ سے مجھ سے خوفزدہ ہیں، اور لازمی امر ہے کہ سلطان کے مزاج مبارک کو میرے خلاف ابھاریں گے، اور یہ بھی ممکن ہےکہ وہ مجھے سلطان سے طلب کریں گے، پھر نہ معلوم کہ انجام کیا ہوگا، اور جو بھی ہوگابرائی سے خالی نہ ہوگا۔اگر سلطان ان کی درخواست کو قبول کرے گا تو وہ وعدہ خلافی کا مرتکب ہوگا، اورمروت کی روح سے معذورنہیں رہے گا۔ اور اگران کی درخواست کو رد کیا تو بعض جاہل لوگ، جو ان کی خلافت کو مانتے ہیں،سلطان کے خلاف طعن و تشنیع کریں گے اور کہیں گے کہ زین پوش کندھے پہ ڈال کر گھوڑےکے آگےپیدل چلناکیا معنی رکھتا ہے(یعنی طاقتور ہوتے ہوئے کسی کی اطاعت کرنا کہاں کی دانشمندی ہے)اور حسن کو ان کے حوالے نہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ ہوسکتا ہے کہ ان باتوں کے نتیجے میں دونوں گروہوں (یعنی ملک شاہ اور عباسی خلیفہ)کے درمیان تصادم واقع ہوجائے، نہیں معلوم کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟

جہاں تک کہ اس دھمکی کا سوال ہے کہ اگر الموت آسمانی برجوں میں سے ایک برج بھی ہو تب بھی آپ اسے خاک کے برابر کردیں گے۔ اس بارے میں عرض یہ ہے کہ اس قلعے میں بسنے والوں کو امام وقت (محق زمانہ) کے فرمان پر پورا یقین ہے کہ یہ قلعہ ایک طویل عرصہ تک ہمارے ہاتھ سے نہیں نکلے گا۔۷اس امر کا تعلق خداوندی عنایت کے ساتھ ہے۔ اور اب میں جو کہ اس کونے میں ہوں،  اور خدا ورسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے التجا ہے کہ سلطان اور اس کے اراکین راہ راست پر آئیں اور انہیں دین حق سے نوازے اور عباسیوں کے فسق و فساد کو مخلوق سے دور کرے۔اگر دین و دنیا کی سعادت  سلطان کے شا مل حال ہو تو جیسا کہ سلطان اسلام محمود غازی اس کام پر آمادہ ہوا تھا اورعباسیوں کے شر کو دفع کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تھا، اور ترمذ سے سیّد علاء الملک خروندزادہ کو بلا کر تخت پر بٹھا دیا تھا، سلطان کو بھی لازم ہے کہ اٹھ کھڑے ہوں، اور اس عظیم کام کو سرانجام دیں، اور ان کے شر کو بندگان خدا سے دور کریں۔ ورنہ وہ وقت آئے گا کہ ایک عادل بادشاہ حرکت میں آئے گا اور اس کام کو سرانجام دے گا اور مسلمانون کو ظلم و ستم سے نجات دلائے گا۔ والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ۔ ۸(اورسلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی)

_____________________________________________________________________________________

حواشی

ا   شعر سعدی کی مشہور کتاب گلستان کے باب اول کی پہلی حکایت میں آیا ہے۔

۲  دیکھئے پروفیسر جواد، حسن بن صباح(مترجم جون ایلیا)۔ ص۴۱تا۴۳۔

۳  کریم کشاورز، حسن صبّاح، ص ۱۳۱

۴  دیکھئے جون ایلیا کی فاضلانہ یاد داشت پر پروفیسر جواد کی کتاب حسن بن صبّاح ، حواشی ص۴۱تا۴۳

۵  امام المستنصر کا یہ فرمان ہمیں جوینی کی تاریخ میں ملتا ہے جو حسب ذیل ہے:”مستنصر نےاس سے پہلے الموت پیغام بھیجا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے درمیان ایک خلیفہ ہمیشہ موجود ہو تا ہے اور اس خلیفہ کا بھی ایک خلیفہ ہوتا ہے۔ آج خدا کا خلیفہ میں ہوں اور میرا خلیفہ حسن صبّاح ہے۔ اگر اس کا حکم مانا اور اس کی پیروی کی تو گویا میرا حکم مانا جوکہ المستنصر ہوں’’(جوینی، تاریخ جہانگشای، ج۳، ص۲۳۰)۔

۶  خط میں اس کے بعد ہارون کی چھوٹی بہن محسنہ کے بارے میں ایک قصّہ ہے جس کا ترجمہ دینا ہم نے مناسب نہیں سمجھا(موٗلف)۔

۷  قلعہ الموت پر اسماعیلی ۱۶۶ برس تک قابض رہے۔اس کے بعد مغلوں نے اسے تباہ کردیا۔

۸  شوشتری، قاضی سیّدنوراللہ،مجالس الموٗمنین۔ تہران، ۱۳۵۴ش، ص۳۱۰تا۳۱۶

نوٹ مذکورہ خطوط ڈاکٹر عزیزاللہ نجیب کی تحقیق پر مبنی کتاب:"حسن صباح حقیقت اور افسانے" سے لیا گیا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

سائنس،عقل اور اسلامScience , Intellect and Islam

Half Muslim!